Archive for December 2014
ریٹنگ کی دوڑ میں میڈیا کا کردار اور غیر مصدقہ خبروں کی بھیڑ چال
ریٹنگ کی دوڑ میں میڈیا کا کردار اور غیر مصدقہ خبروں کی بھیڑ چال
تحریر : محمّد افضال فاروقی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود سن سینتالیس میں ہوا۔تقریبا بیس برسوں بعد پاکستان میں ٹیلی ویژن کی ابتدا ہوئی ۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کو عام ہوئے چار عشروں کا وقت ہی ہوا ہے۔ پی ٹی وی کی پاکستان میں پیدائش کے وقت ایوب کا دور تھا۔ ڈکٹیٹر کے دور میں شروع ہونے والے اس ٹی وی کے ڈبے نے پی ٹی وی سے پرائیوٹ ٹی وی چینل کا سفر تیس برسوں میں طے کیا ۔ دوہزار کے بعد جب پرائیوٹ ٹی وی چینلز کا بول بالا شروع ہوا تو اس وقت بھی مشرف ایک آمر کے روپ میں پاکستان میں موجود تھے مگر صرف چودہ برسوں میں ہی ٹی وی کا مقصد اپنی کشش کھوتا چلاگیا۔ رنگوں کا یہ ڈبے جسے ہرخاص وعام نے ہمیشہ اہمیت دی، اپنی اصل صورت سے بہت دور جاچکا ہے۔ کسی کی موت کی خبرکسی کی ریٹنگ کا سبب ہوتی ہے۔ کوئی حادثہ ہونے کے بعد جس انداز میں منظر کشی کی جاتی ہے اسے دیکھ کر اچھے اچھوں کے دل بھرآتے ہیں۔ رپورٹرز اور اینکر پرسن کی جانب سے پوچھے گئے سوالات سن کر سر پیٹ لینے کوجی کرتا ہے۔ اشتہارات کی چمک دمک نے خبروں کی شکل ہی بدل دی ہے۔ پرائم ٹائم یعنی رات نو بجے کے خبرنامے میں خبریں گھٹ گھٹ کر کم ہوتی جارہی ہیں۔ سب سے پہلے کی دوڑ میں انسانیت، روادری اور معاشرے کا احترام عنقا ہوگیاہے۔ ہوش ربا رقص سے بھرپورخبروں سے خبر ڈھونڈنی پڑتی ہے اور مقصدیت پیچھے رہ جاتی ہے۔کسی تصدیق کے بغیر فوری خبر دینے کی روایت سے سنسنی تو پھیل جاتی ہے مگر کتنے لوگوں کا نقصان ہوگا، یہ سوچنا عوام پر منحصر ہے۔ رپورٹر حضرات بھی دفاتر میں بیٹھ کر بیپر دینے کو فخر سمجھتے ہیں اور کسی مقام پر پہنچنے کو سیکورٹی خدشات سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ بھارتی فلمیں اگرچہ آزادانہ ہمارے ٹی وی چینلز پر جلوے تو نہیں بکھیر رہیں مگر خبروں کے درمیان ٹھمکتی ہیروئین اور بے ربط گانے سے مزین خبروں نے سنجیدہ خبروں کو ناظرین سے دور کردیا ہے۔ بے ربط دعوی،بیکار پالیسیاں،غیر فعال ادارے اور بے حس لوگ ہمارے معاشرے میں میڈیا کی تباہی اور اس کے نامناسب استعمال کے کلی طور پر ذمہ دار ہیں۔
جمہوری دور آنے کے بعد بھی ٹی وی وہ مقاصد حاصل نہ کرسکا جو کہ اسے لازمی حاصل کرنا چاہئے تھے۔ پی ٹی وی پر تو سرکاری ٹی وی کا لیبل ہی لگاہوا ہے مگر کچھ نجی چینلر بھی حکومتی چاپلوسی میں آگے آگے نظر آئے۔غیر ملکی امداد کے سائے تلے پروان چڑھنے والے چینلز نے حکومت کے ساتھ ساتھ غیرملکی آقاؤں کے ناموں کی بھی مالا جپی۔ مستحکم جمہوریت کے لیے مضبوط میڈیا کا کردار جہاں خوش آئند رہا وہیں حد سے زیادہ میڈیا کی دخل اندازی نے جمہوری حکومتوں کے لیے مشکلات بھی کھڑی کیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی وی چینلز اپنی پالیسیوں کو تشکیل دیتےہوئے عوامی نمائندوں کو بھی شامل کریں اور عہد کریں کہ غیر معیاری مواد نشر کرنے سے اجتناب کیاجائے گا۔ ہماری خبروں کو بھی اس انداز سے تشکیل دیا جائے کہ وہ پڑھنے والوں کو درست پیغام دیں اور کسی ذہنی کوفت یا اثیت میں مبتلا نہ ہونے دے۔ مغرب یا خصوصا بھارت کی تقلید ہماری روایات کے برعکس ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اقدارکا فروغ دیں اور صحافت میں ایسا کام کریں کہ دوسری قومیں ہماری سوچ اور طریقہ کار کو دیکھ کر کچھ سبق سیکھیں۔