- Back to Home »
- Amir Nawaz Khan , Drone attacks , Taliban , TTP »
- ابہام یا خوف
Wednesday, December 11, 2013
ابہام یا خوف
تحریر :عامر نواز خان *
پاکستان کو اس وقت ریاستی چلینجز میں سے ایک سب سے بڑا چیلنج طالبان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان میں تمام طبقات اور ریاستی اداروں کو دہشت گردی کی جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔پچھلے دنوں حکیم اللہ کی موت (شہادت لکھنا یا اس پر بات کرنا ایک طویل اور لمبی بحث درکار ہے) پر پاکستان میں نظریاتی تفریق واضح طور پر نظر آئی جہاں شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے خوشی کا اظہار کیا جبکہ کچھ لوگ اس پر تزبزب کا شکار نظر آئے۔ ایسے موقع پر جب تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا مولانا منور حسن اور مولانا فضل الرحمان کے بیانات نے گویا آگ لگا دی۔ میں نہ تو کوئی صحافی ہوں اور نہ ہی عالمی امور پر جامع دسترس رکھتا ہوں مگر ایک عام پاکستانی ہونے کے سامنے کچھ سوال آپ سب دوستوں کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
- اگر طالبان ہمارے اپنے بھائی ہیں تو پچھلے دس سال کے دوران پاکستانی افراد اور مسلح افواج پر حملے کیوں کیے؟
- اگر یہ مفروضہ بھی مان لیا جائے کہ طالبان یہود و ہنود کی سازش کا حصہ ہیں تو انہیں شہید کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
- اگر طالبان ہمارے اپنے لوگ ہیں تو انہوں نے پاکستان کے دستور سے ہمیشہ انکار کیوں کیا؟
- اگر طالبان ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں تو ان سے مزاکرات کے لیے اتنی منتیں ترلے کس لیے کئے جا رہے ہیں؟
- حالیہ دنوں میجر جنرل نیازی کی شہادت پر تمام سیاسی جماعتوں نے چپ سادھے رکھی جب کہ حکیم اللہ کی موت پر ایک بھونچال آگیا کیوں؟
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ حکومت طالبان کے حوالے سے سنجیدہ ہے یا نہیں مگر ایک بات وقت کے ساتھ واضح ہو رہی ہے کہ تمام دینی جماعتیں اور جمہوری جماعتیں طالبان کے حوالے سے یا تو ابہام کا شکار ہیں یا خوف کے باعث ایک واضح موقف اپنانے سے گریز کر رہی ہیں۔ منور حسن نے حکیم اللہ کو شہید کہتے وقت ایک لمحے کا خیال نہیں کیا کہ یہ وہی تحریک طالبان ہے جنہوں نے قاضی حسین احمد کو کافر کہا اور ان پر خودکش حملے کیے؟ کیا مولانا فضل الرحمان اپنی جان کے خوف اور مقامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے طالبان کو گلے لگانے کو مضطرب ہیں؟ یار رکھیں یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے اور اگر خدانخواستہ پاکستان نہ رہا تو شاید نظریات کی یہ دکانیں کسی اناتھ آشرم کی نظر ہو جائیں۔ یہی وقت ہے جب ریاست کے تمام ادارے بالخصوص پاکستان آرمی اور موجودہ حکومت طالبان کے حوالے سے ایک واضح موقف اپنائیں۔ اگر یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں تو انکی زندگی میں واپسی کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جائے ورنہ آپ سمجھدار ہیں کہ یہ لوگ کبھی ہتھیار پھینک کر پھول نہیں اٹھایئں گے۔
*پہلے یہاں چھپا