- Back to Home »
- Amir Nawaz Khan , Enlighten moderation , Extremism , Ideology , Pakistan , Religion , Secularism »
- تنگ نظری اور نظریاتی جنگ
Sunday, July 14, 2013
*تنگ نظری اور نظریاتی جنگ
تحریر | عامر نواز خان
اگر آپ نے گہرائی سے مشاہدہ کیا ہو تو ہمارے معاشرے میں بےچینی کی ایک کیفیت پائی جاتی ہے۔ اسکی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ملک میں جاری دہشتگردی کی لہر،بجلی کی لوڈشیڈنگ، گرانی وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر موقعوں پر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تلخ ہو جاتے ہیں اور انکی پوری کوشش ہوتی ہے سامع انکی بات سے مکمل طور پر اتفاق کرے ورنہ ہاتھا پائی کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پاکستان کو آزاد ہوئے ٦٥ برس سے زائد کا عرصہ بیت گیا۔ ایک ایسی ریاست کا خواب جہاں ناصرف مسلمان بلکہ تمام دیگر بسنے والی اکائیاں اپنی زندگی کو بہترین انسانی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد ایک ایسی تنگ نظری اور نظریاتی جنگ کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کے حامی رحجانات کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ دائیں بازو کے مطابق پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے نیز اسلام کا قلعہ ہے جبکہ بائیں بازو یا لبرلز کے مطابق پاکستان ایک سیکولر ریاست ہونی چاہیے جہاں مذہب کا کردار ریاست کے امور سے مکمل طور پر الگ ہونا چاہیے۔اب مسئلہ نظریاتی رحجانات کا نہیں ان میں پائی جانیوالی شدت پسندی اور تنگ نظری کا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں آپکے پاس کوئی مڈل چوائس نہیں۔ یا تو تمام عمر ایک ملا بن کر گزاریں یا ایک لبرل اور سیکولر بن کر۔
ویسے تو یار دوست پاکستان میں موجودہ مسائل کی جڑ ملائیت کو قرار دیتے ہیں جس سے میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں مگر اس سے کہیں زیادہ گھمبھیر مسئلہ ہمارے اندر پائی جانیوالی تنگ نظری ہے۔ یہ وہ تنگ نظری ہے جسکا آغاز گھر سے نکلتے ہی ہو جاتا ہے اور آپکو ان گنت سوالوں سے گھیر لیا جاتا ہے۔
آپ مسلمان ہیں؟ شیعہ ہیں یا سنی؟
آپ پائنچے اوپر کیوں نہیں رکھتے؟
آپ نے روزہ رکھا یا نہیں؟ اگر نہیں رکھا تو کیوں نہیں رکھا؟
شراب کیوں پیتے ہو؟
آپ نے داڑھی کیوں نہیں رکھی ہوئی؟ اگر رکھی ہوئی ہے تو کیا مولوی ہو؟
یہ تنگ نظری صرف یہیں آکر ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ اپنے گلی محلوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، آفس، چائے اور کھانے کے ڈھابوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں پائیں گے جہاں روزانہ ایک نئے تماشے کی آس لگائے لوگ بیٹھتے ہیں اور مخاطب اور سامع ایک دوسرے کی تنگ نظری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
میں جو کہہ رہا ہوں وہ حقیقت پر مبنی ہے۔۔۔
تم جھوٹے ہو تمہاری شکل سے لگ رہا ہے۔۔۔
تم مولوی ہو، تم لبرل فاشسٹ ہو۔۔۔۔
تم فلاں میں فلاں۔۔۔۔
میں یہ تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ ہمارے ازلی دشمن ہیں مگر ہمارے اندر پائی جانیوالی یہ تنگ نظری اور عدم برداشت ہماری سب سے بڑی دشممن بن چکی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ اکثر لوگ دہشتگردی اور طالبان کو ہماری اسٹیبلشمٹ کی باقیات قرار دیتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ ہمارے تنگ نظر خیالات اور عدم برداشت کی ایک جیتی جاگتی مثال بن چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں بسنے والے تمام لوگ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں اور ایک دوسرے کیساتھ جینا سیکھیں ورنہ۔۔۔
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔۔۔
بشکریه (http://bit.ly/1alBMEz)*