- Back to Home »
- Contempt of court , General Elections 2013 , Hamid Khan , Iftikhar Muhammad Ch. , Imran Khan , Nausheen Yousuf , PTI »
- توہین عدالت کیس: عمران خان کا بنچ نمبر ون میں ایک دن
Saturday, August 3, 2013
توہین عدالت کیس: عمران خان کا بنچ نمبرون میں ایک دن
تحرير : نوشين يوسف
عام انتخابات میں ناکامی کے بعد عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہنا۔۔۔سپریم کورٹ
نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو توہین عدالت نوٹس بھجوا ہی دیا. ٢ اگست کو عمران خان اپنا دفاع کرنے سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ون پہنچے
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل حامد خان نے تفصیلی جواب جمع کرانےکے لئے کچھ مہلت مانگی۔ بعد ازاں انھوں نے مختصر بیان عدالت کو سنایا۔ بیان میں کہا گیا کہ عمران خان کبھی عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ عمران تو قانون اور عدلیہ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے جدوجہد ہے۔ عمران کو عام انتخابات میں دھاندلی پر الیکشن کمیشن سے شکوہ ہے اور انھیں سپریم کورٹ سے بہت توقعات وابسطہ ہیں۔
![](https://pbs.twimg.com/media/BQo_DlfCAAEAEKR.jpg:large)
اس دوران بار بار عمران خان اپنی نشست سے اٹھ کر چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے کی کوشش کرتے رہے، لیکن کوئی نہ کوئی ساتھی بٹھا دیتا۔ اس دوران حامد خان بھی تھوڑے پریشان دیکھے۔ کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حامد خان سے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی 31 درخواستیں الیکشن ٹربیونل میں داخل ہیں۔ عمران خان کوآئین کے بارے میں بتائیں کہ جو کیسز الیکشن ٹریبیونل میں زیر سماعت ہوتے ہیں وہ سپریم کورٹ میں سنے نہیں جا سکتے۔
جب چیف جسٹس نے عمران خان کی پریس کانفرنس کے بارے میں دریافت کیا کہ جس میں انھوں نے عدلیہ کے لیے لفظ شرمناک کا استعمال کیا، تو حامد خان نے جواب دیا وہ تو ریٹرنگ افسران کے بارے میں رائے تھی۔ بنچ نے یاد دلایا کہ آئین کے مطابق تو عدلیہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ہے۔ پھر بنچ نے دریافت کیا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ معافی نہیں مانگیں گے۔ حامد خان بولے کہ یہ میڈیا والے بھی نہ ہر چیز ۔۔۔۔۔۔۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہےکہ عمران خان ایک قد آور شخصیت ہیں، ان کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ چیف جسٹس اس طرح دباؤ میں آنے لگیں تو لوگ کہیں گے کہ ہمارا مقدمہ سنیں ورنہ گالی دیں گے۔ بالا آخر عمران خان اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈائس پر جا کر اپنے بات شروع کر دی۔۔ کہنے لگے کہ میں نہ آزاد عدلیہ کی بحالی کی خاطر 8 روز جیل کاٹی ہے، جو کسی سیاست دان نے نہیں کاٹی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا مت کہیں شرمندگی ہوتی ہے، بحالی عدلیہ کے لیے مزدوروں ، طالبعلوں پوری قوم نے کردار ادا کیا۔
عمران خان نے جب دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی تو بنچ نے نرمی سے کہا کہ آپ کے وکیل بات کر رہے ہیں نا۔۔۔۔(مقصد شاید عمران خان کو کوئی غلط بیان دینے سے روکنا تھا)۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان آپ کی پٹیشن پر یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا،آپ کہتے تھے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ سپریم کورٹ کیسے مان لے کہ ماتحت عدلیہ کو شرمناک کہنا درست ہے۔ خیر سماعت کے بعد عدلیہ نے عمران خان کو 28 اگست تک دوبارہ جواب داخل کرانے کی مہلت دے دی۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے ہنستے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب اتنی لمبی سماعت کی مہلت دینے پر کوئی پریس کانفرنس نہ ہو جائے۔
لیکن خان صاحب بھی جب عدالت سے باہر نکلے تو میڈیا سے اجتناب کرنے کی بجائے پھر گفتگو کر ڈالی اور کہا کہ انھیں پہلی مرتبہ علم ہوا ہے کہ لفظ شرمناک گالی ہے۔ اس دوران ان کے وکیل حامد خان خاموشی سے کنارے کھڑے رہے۔
میری رائے پوچھیں تو کہوں گی کہ سپریم کورٹ نے خواہ مخواہ میں عمران خان کو اتنی اہمیت دی جس کو عمران نے ہیرو بننے کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہوئے جیل جانے اور نااہلی سہنے کی بات کر ڈالی۔ ججوں کے لب و لہجے سے واضح تھا کہ شاید سپریم کورٹ معاملے کو ختم کرنا چاہیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگلی سماعت کے لیے لمبی تاریخ ڈال دی۔ لیکن ایک چیز یہ بھی لگی کہ خان صاحب کھلاڑی ہی ہیں ابھی تک سیاست دان نہیں بنے، ان کے سٹائل میں میچیورٹی نہیں آئی بلکہ کھلنڈرا پن موجود ہے۔ محاز آرائی سے اجتناب کرنے کی بجائے ہلہ گلہ چاہتے ہیں۔ تاکہ دنیا کو لگے کہ وہ درست کہتے ہیں کہ وہ انتخابات ایسے ہی نہیں ہارے بلکہ انکو ہرانے کے لیے دھاندلی میں عدلیہ کا پورا ہاتھ ہے۔ عمران خان نےانتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار تو الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو ٹھہرا دیا ہے لیکن بھول گئے ہیں کہ انتخابات کرانے میں ایک تیسرا فریق پاک فوج بھی تھی۔۔۔۔جن کے کردار کے بارے میں خان صاحب نے اب تک ایک لفظ نہیں کہا۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل حامد خان نے تفصیلی جواب جمع کرانےکے لئے کچھ مہلت مانگی۔ بعد ازاں انھوں نے مختصر بیان عدالت کو سنایا۔ بیان میں کہا گیا کہ عمران خان کبھی عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ عمران تو قانون اور عدلیہ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے جدوجہد ہے۔ عمران کو عام انتخابات میں دھاندلی پر الیکشن کمیشن سے شکوہ ہے اور انھیں سپریم کورٹ سے بہت توقعات وابسطہ ہیں۔
![](https://pbs.twimg.com/media/BQo_DlfCAAEAEKR.jpg:large)
اس دوران بار بار عمران خان اپنی نشست سے اٹھ کر چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے کی کوشش کرتے رہے، لیکن کوئی نہ کوئی ساتھی بٹھا دیتا۔ اس دوران حامد خان بھی تھوڑے پریشان دیکھے۔ کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حامد خان سے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی 31 درخواستیں الیکشن ٹربیونل میں داخل ہیں۔ عمران خان کوآئین کے بارے میں بتائیں کہ جو کیسز الیکشن ٹریبیونل میں زیر سماعت ہوتے ہیں وہ سپریم کورٹ میں سنے نہیں جا سکتے۔
جب چیف جسٹس نے عمران خان کی پریس کانفرنس کے بارے میں دریافت کیا کہ جس میں انھوں نے عدلیہ کے لیے لفظ شرمناک کا استعمال کیا، تو حامد خان نے جواب دیا وہ تو ریٹرنگ افسران کے بارے میں رائے تھی۔ بنچ نے یاد دلایا کہ آئین کے مطابق تو عدلیہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ہے۔ پھر بنچ نے دریافت کیا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ معافی نہیں مانگیں گے۔ حامد خان بولے کہ یہ میڈیا والے بھی نہ ہر چیز ۔۔۔۔۔۔۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہےکہ عمران خان ایک قد آور شخصیت ہیں، ان کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ چیف جسٹس اس طرح دباؤ میں آنے لگیں تو لوگ کہیں گے کہ ہمارا مقدمہ سنیں ورنہ گالی دیں گے۔ بالا آخر عمران خان اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈائس پر جا کر اپنے بات شروع کر دی۔۔ کہنے لگے کہ میں نہ آزاد عدلیہ کی بحالی کی خاطر 8 روز جیل کاٹی ہے، جو کسی سیاست دان نے نہیں کاٹی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا مت کہیں شرمندگی ہوتی ہے، بحالی عدلیہ کے لیے مزدوروں ، طالبعلوں پوری قوم نے کردار ادا کیا۔
عمران خان نے جب دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی تو بنچ نے نرمی سے کہا کہ آپ کے وکیل بات کر رہے ہیں نا۔۔۔۔(مقصد شاید عمران خان کو کوئی غلط بیان دینے سے روکنا تھا)۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان آپ کی پٹیشن پر یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا،آپ کہتے تھے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ سپریم کورٹ کیسے مان لے کہ ماتحت عدلیہ کو شرمناک کہنا درست ہے۔ خیر سماعت کے بعد عدلیہ نے عمران خان کو 28 اگست تک دوبارہ جواب داخل کرانے کی مہلت دے دی۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے ہنستے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب اتنی لمبی سماعت کی مہلت دینے پر کوئی پریس کانفرنس نہ ہو جائے۔
لیکن خان صاحب بھی جب عدالت سے باہر نکلے تو میڈیا سے اجتناب کرنے کی بجائے پھر گفتگو کر ڈالی اور کہا کہ انھیں پہلی مرتبہ علم ہوا ہے کہ لفظ شرمناک گالی ہے۔ اس دوران ان کے وکیل حامد خان خاموشی سے کنارے کھڑے رہے۔
میری رائے پوچھیں تو کہوں گی کہ سپریم کورٹ نے خواہ مخواہ میں عمران خان کو اتنی اہمیت دی جس کو عمران نے ہیرو بننے کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہوئے جیل جانے اور نااہلی سہنے کی بات کر ڈالی۔ ججوں کے لب و لہجے سے واضح تھا کہ شاید سپریم کورٹ معاملے کو ختم کرنا چاہیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگلی سماعت کے لیے لمبی تاریخ ڈال دی۔ لیکن ایک چیز یہ بھی لگی کہ خان صاحب کھلاڑی ہی ہیں ابھی تک سیاست دان نہیں بنے، ان کے سٹائل میں میچیورٹی نہیں آئی بلکہ کھلنڈرا پن موجود ہے۔ محاز آرائی سے اجتناب کرنے کی بجائے ہلہ گلہ چاہتے ہیں۔ تاکہ دنیا کو لگے کہ وہ درست کہتے ہیں کہ وہ انتخابات ایسے ہی نہیں ہارے بلکہ انکو ہرانے کے لیے دھاندلی میں عدلیہ کا پورا ہاتھ ہے۔ عمران خان نےانتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار تو الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو ٹھہرا دیا ہے لیکن بھول گئے ہیں کہ انتخابات کرانے میں ایک تیسرا فریق پاک فوج بھی تھی۔۔۔۔جن کے کردار کے بارے میں خان صاحب نے اب تک ایک لفظ نہیں کہا۔