Sunday, August 11, 2013
سپریم کورٹ اور جمہوری حکومت کی بحالی
دور آمریت میں عوام کے حقوق غصب ہوتے ہیں ایسے حالات میں کسی کی ملکیت کو تحفظ دینا خاص طور پر جب خود آمر کی نظریں ملکیت پر لگی ہوں مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے - پاکستان سٹیل مل کی مشرف کے دور آمریت میں کوڑیوں کے بھاؤ نیلامی بھی ایسا ہی ایک کٹھن معاملہ تھا- سپریم کورٹ نے نجکاری کے عمل میں غیر شفافیت کو سامنے رکھتے ہوئے نجکاری کو منسوخ کر دیا تھا اور یوں جنرل مشرف اور اسکے حواریوں کی سازش کو ناکام بنا کرقوم کی اربوں روپے کی ملکیت کو لٹنے سے بچایا - سپریم کورٹ نے اپنے اس عمل سے واضح کر دیا کے سول ادارے ہرگز فوج کے تابع نہیں - یہ فیصلہ سول بالادستی کی جانب سپریم کورٹ کا اہم قدم تھا
پڑھا لکھا پنجاب یعنی جناب چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے شروع کیا جانے والا حکومت پنجاب کا چار ہزار ایکڑ پر محیط نیو مری پروجیکٹ پاکستان کی ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کر سکتا تھا مگر اس کے پیچھے قارون پاکستان جناب ملک ریاض صاحب کا ہاتھ تھا جنہیں فرعون پاکستان جناب مشرف صاحب اور انکے درباری جرنیلوں کا آشیرباد بھی حاصل تھا -جرنیلوں کو بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے تجربے سے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کی لگی لت اس ماحولیاتی دہشت گردی کے منصوبہ کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کی ضمانت تھی- اگر سپریم کورٹ کا سوموٹو نوٹس ہرکولیس کے ہتھوڑے کی طرح پاکستان کے طاقتور ترین افراد کے مال بنانے کے خواب پر برس نہ پڑتا تو بنیادی سہولیات سے محروم عوام صاف فضا میں سانس لینے کے بنیادی حق سے بھی محروم ہوجاتی
پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوص امریکہ کو بیچنے کا اعتراف کرنے والے فوجی سربراہ جرنل مشرف اور اس انسانی بیو پار میں شریک جرم دیگر افسران کے لئے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے سپریم کورٹ کا سوموٹو نوٹس اور اس سلسلہ میں ملوث اداروں پر بازیابی کے لئے دبائو ناقابل قبول تھا- ایسی صورت حال میں سول سپریم کورٹ پر فوجی بالادستی قائم کرنا فوج کی اعلٰی قیادت کی دانست میں ناگزیر تھا- اسی بلا دستی کو قائم کرنے کی ضد میں جرنل مشرف نے فوج کے پانچ اہم جرنیلوں جن میں اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جناب اشفاق پرویز کیانی بھی شامل تھے کے ہمراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب چودھری افتخار کو آرمی ہاؤس بلا کر استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا - جو واضح طور پر فوج کی طرف سے ایک سول ادارے کو اپنی بالادستی کا پیغام تھا- چیف جسٹس چودھری افتخار نے فوجی سربراہ کا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا وہ انکار جس نے آزاد عدلیہ تحریک کا روپ دھار لیا اور ملک میں قائم سیاسی جمود کو توڑ دیا-اپنے آمرانہ طرز حکومت کے باعث عوام میں غیر مقبول مشرف حکومت کے سپریم کورٹ پر حملے کے جواب میں عدلیہ تحریک سے آمریت لڑ کھڑا اٹھی- اپنے اقتدار کے لئے سیاسی جماعتوں کو زہر مہلک سمجھنے والی آمریت سنبھلنے کی کوشش میں پیپلز پارٹی سے شراکت اقتدار پر آمادہ ہوگئی - جس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی چیرُیرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی ممکن ہوئی جو بہرحال آگے چل کر 2008 میں فوج سے عوام کو اقتدار کی منتقلی کا اہم جز ثابت ہوئی
١٩٩٩ سے جاری دور آمریت کے مظالم کو ایک اور ظلم سے چھپانے کے لئے بدنام زمانہ قومی مفاہمتی آرڈیننس این-آر-او جاری کیا گیا جس میں آٹھ ہزار کے قریب ملزموں کو بغیر کسی صفائی کے باعزت بری کیا گیا -آرڈیننس کو عوامی حلقوں نے ماننے اس انکار کر دیا یہاں تک کے پارلیمان میں اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی نے اسے ایوان میں پیش کرنے سے گریز کیا - انہی عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ٢٠٠٧ میں سپریم کورٹ نے پہلے اس آرڈیننس کو معطل اور بعد میں ٢٠٠٩ میں کالعدم قرار دیا
٢٠١٢ میں جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کے لئے جناب طاہر القادری کی شکل میں ایک ٹروجن ہارس پاکستان کے سیاسی میدان میں اتار تو عوامی حکومت سے جاری فوجی کشمکش نے ایک دلچسپ صورت حال اختیار کر لی تاہم طاہر القادری کےایجنڈے کو عدالتی فیصلہ نے غیر موثر کر دیا- مصر میں فوج کے ہاتھوں مرسی حکومت کا خاتمہ اسی ایجنڈے کی ایک کامیاب مثال ہے جسےپاکستان میں سپریم کورٹ نے ناکام بنا کر سول حکومت کا تحفظ کیا
فوج اور سول عوام کے درمیان اقتدار کی کشمکش جاری رہے گی -١٩٧٧ کے انتخابات کے بعد اسٹبلشمنٹ کے من پسند اتحاد پی-این-اے کی شکست کے بعد دھاندلی کے نام پر سول حکومت کے خلاف مظاہروں کی سازشی سیاست جیسے حربے آج بھی آزمائے جا رہے ہیں تاہم سپریم کورٹ نے بھی دھاندلی کا ڈھول پیٹنے والوں کو عدالت میں طلب کر لیا ہے اور امید ہے کے طاہر القادری کے ایجنڈے کی طرح اس ایجنڈے کو بھی عوام کے سامنے غلط ثابت کر دے گی